شهید ابراهیم هادی

شوخ طبعی

            

کام کے وقت ابراہیم کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کرتا تھا لیکن جب ہنسی مذاق کا موقع ہوتا تو وہ بہت ہی خوش طبع اور ہنس مکھ واقع ہوتا تھا۔  حقیقت میں لوگ ابراہیم کو اسی بات کی وجہ سے بہت پسند بھی کرتے تھے۔ کھانا کھانے کا اس کا اپنا ہی انداز تھا۔ جب کھانا زیادہ ہوتا تو وہ خوب کھاتا اور کہتا تھا: ’’ہمارا جسم کھیل اور زیادہ کام کی وجہ سے زیادہ خوراک کا تقاضا کرتا ہے۔‘‘ کرمانشاہ میں ایک دن وہ گیلان غرب کے ایک مقامی جوان کے ساتھ سری پائے کے ہوٹل پر گیا۔ وہاں وہ دو بندے مل کر تین بکروں سری پائے  ہڑپ کر گئے!! ایک دفعہ ایسا بھی ہوا کہ ایک دوست نے ابراہیم کو دن کے کھانے پر بلایا۔ اس نے 3 بندوں کے لیے 6 مرغ بھونے اور کافی مقدار میں چاول وغیرہ بھی پکا لیے۔ ان لوگوں نے اس میں سے ایک نوالہ بھی نہ چھوڑا۔

*****

جن دنوں ابراہیم زخمی تھا تو میں اس کی عیادت کے لیےگیا۔ اس کے بعد ہم دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ایک دوست کے گھر افطاری کی دعوت پر چلے گئے۔ میزبان ابراہیم کا قریبی دوست تھا۔ وہ تو کافی تکلف سے کام لے رہا تھا مگر ابراہیم کسی تکلف کا روادار نہ تھا۔ اس نے کوئی کسر نہ چھوڑی اور دسترخوان پر ایک چیز بھی باقی نہ بچی۔ ہمارا دوست جعفر جنگروی بھی وہیں پر تھا۔ افطار کے بعد وہ بار بار ساتھ والے کمرے میں جاتا اور اپنے دوستوں کو بلاتا۔ ان سب کو ایک  ایک کر کے کمرے میں لاتا اور کہتا: ’’ابرام جان، یہ بہت شدت سے تمہیں ملنے کے مشتاق تھے اور ۔۔۔‘‘ ابراہیم، جس نے کافی کھانا کھالیا تھا اور اس کے پاؤں میں درد بھی ہو رہا تھا، بے چارہ مجبور تھا کہ بار بار ہر آنے والے دوست کے لیے اٹھے اور اس کی روبوسی کرے۔ جعفر اس کے پیچھے کھڑا کھڑا خاموشی سے ہنسے جا رہا تھا۔ جیسے ہی ابراہیم بیٹھتا، جعفر دوسرے کمرے میں جا کر ایک اور دوست کو لے آتا۔ اس نے کئی بار ایسا ہی کیا۔ ابراہیم جو خاصا تنگ آ چکا تھا، اپنے خاص دھیمے لہجے میں کہنے لگا: ’’جعفر جان، ہماری باری بھی آئے گی۔‘‘ رات کے آخری پہر ہم واپس پلٹنے لگے۔  ابراہیم میری موٹرسائیکل پر بیٹھ کر کہنے لگا: ’’جلدی چلو۔‘‘ جعفر بھی اپنی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر ہمارے پیچھے پیچھے آنے لگا۔ ہم اس سے کافی آگے نکل آئے اور ایک چوکی پر آ کر ٹھہر گئے۔ میں ٹھہر گیا۔ ابراہیم نے اونچی آواز میں کہا: ’’بھائی، ذرا یہاں آنا۔‘‘ ایک مسلح جوان آگے بڑھا۔ ابراہیم نے کہا: ’’پیارے دوست، میں فوجی ہوں اور یہ میرا دوست بھی فوجی ہے۔ ہم سپاہ پاسداران سے ہیں۔ ایک موٹر سائیکل ہمارا پیچھا کر رہا ہےجو۔۔۔‘‘ پھر تھوڑا ٹھہر کر کہنے لگا: ’’میں کچھ نہ کہوں تو بہتر ہی ہے۔ لیکن تم ذرا ہوشیار رہو۔ میرا خیال ہے کہ اس کے پاس اسلحہ بھی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے مسلح جوان کو خدا حافظ کہا اور ہم چل دیے۔ میں فٹ پاتھ پر ہی تھوڑا سے آگے جا کر کھڑا ہو گیا۔ ہم دونوں ہنس رہے تھے۔جیسے ہی جعفر کی موٹر سائیکل پہنچی، چار مسلح جوانوں نے موٹر سائیکل کو گھیر لیا۔ اس کے بعد ان کی نظر جعفر کی کمر سے لٹکے پستول پر پڑ گئی۔ اس کے بعد تو اس نے بہتیرا شور مچایا مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔۔۔تقریباً آدھے گھنٹے بعد اس ٹولی کا افسر آیا تو اس نے جعفر کو پہچان لیا۔ اس نے کافی معذرت خواہی کی اور اپنے سپاہیوں سے کہا: ’’یہ حاج جعفر ہیں جو سید الشہداء علیہ السلام ڈویژن کے افسران میں سے ہیں۔‘‘ ان جوانوں نے کافی شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے معذرت خواہی کی۔ جعفر جو بہت ہی غصے میں تھا، اپنا اسلحہ اٹھا کر سیدھا موٹر سائیکل پر بیٹھا اور چل دیا۔ تھوڑا آگے آیا تو اس نے ابراہیم کو دیکھ لیا جو فٹ پاتھ پر کھڑا زور زور سے ہنس رہا تھا۔ اب جعفر کی سمجھ میں سارا ماجرا آ چکا تھا۔ابراہیم نے آگے بڑھ کر جعفر کو گلے لگا لیا اور اسے بوسہ دیا۔ جعفر کا غصہ ہوا ہو گیا اور وہ بھی ہنسنےلگا اور خدا کا شکر کہ اسی ہنسی پر سارا معاملہ ختم ہو گیا۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location