شهید ابراهیم هادی

ابوجعفر

 

 1981؁ کے ابتدائی ایام میں اطلاع پہنچی کہ ہمارے مجاہدین نے ’’بازی دراز‘‘ کی چوٹیوں پر کچھ مزید حملے کیے ہیں اور اب یہ طے پایا ہے کہ اندرزگو گروپ کے جوان بھی اسی وقت دشمن کی علاقوں میں گھس کر ریکی کریں۔ اس کام کے لیے ابراہیم کے علاوہ وہاب قنبری[1]، رضا گودینی اور میرا انتخاب کیا گیا۔ مقامی کُردوں میں سے شاہرخ نورائی اور حشمت کوہ پیکر بھی ہمارے ہمراہ ہو گئے۔ ضروری سازو سامان جس میں کھانے پینے کی چیزیں، اسلحہ  اور کچھ بارودی سرنگیں شامل تھیں، ہم نے اپنے ساتھ لے لیا۔ جیسے ہی اندھیرا چھانے لگا تو ہم چوٹیوں کی طرف چل پڑے۔ ان چوٹیوں کو عبور کرتے ہوئے ہم دشتِ گیلان کے علاقے میں پہنچے۔روشنی ہوئی تو ہم ایک مناسب جگہ پر ٹھہر گئے اور اپنے آپ کو چھپا لیا۔ دن کے وقت استراحت کے ساتھ ساتھ ہم نے دشمن کے علاقوں اور دشت میں آنے والے راستوں کی ریکی کا کام بھی انجام دیا۔ دشمن کے مقبوضہ علاقے کا نقشہ بھی تیار کر لیا۔ ہمارے سامنے والے دشت میں دو سڑکیں تھیں، جن میں سے ایک (دشت گیلان روڈ) تو تارکول کی پکی سڑک تھی جبکہ دوسری کچی سڑک، جو فقط فوجی سرگرمیوں کے لیے استعمال ہوتی تھی۔ ان دو سڑکوں کے درمیان تقریباً پانچ کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ عراقی فوجیوں کا ایک دستہ ٹیلوں پر اور سڑک کے اطراف میں تعینات اس جگہ پر پہرہ دے رہا تھا۔ جیسے ہی اندھیرا چھا گیا، ہم نماز پڑھ کر روانہ ہو گئے۔میں اور رضا گودینی تارکول کی پکی سڑک جب کہ دوسرے جوان کچی سڑک کی طرف چلے گئے۔  سڑک کے آس پاس ہم لوگ چھپ گئے۔ جب سڑک خالی ہو گئی تو ہم جلدی سے سڑک پر ہو لیے۔ دو بارودی سرنگیں سڑک پر موجود گڑھوں میں نصب کر دیں اور ان پر تھوڑی تھوڑی مٹی ڈال کر انہیں چھپا دیا۔ اس کے بعد جلدی سے ہم کچی سڑک کی طرف بڑھ گئے۔ دشمن کے فوجیوں کی نقل و حرکت سے یہی معلوم ہو رہا تھا کہ عراقی ابھی تک بازی دراز کے علاقے میں مصروفِ جنگ ہیں۔ زیادہ تر عراقی فوجی اور گاڑیاں اسی طرف جا رہی تھیں۔ ابھی ہم کچی سڑک پر نہ پہنچے تھے کہ ایک ہولناک دھماکے کی آواز ہمیں اپنی پیچھے سے سنائی دی۔ ہم دونوں فوراً بیٹھ گئے اور پیچھے کی طرف واپس چل پڑے۔ ایک عراقی ٹینک سرنگ کا شکار ہو کر جل رہا تھا۔ کچھ لمحات گزرے تو ٹینک کے اندر پڑے میزائل بھی ایک ایک کر کے پھٹنے لگے۔ وہ سارا میدان ٹینک کے جلنے کی وجہ سے روشن ہو چکا تھا۔ عراقیوں کے دل میں عجیب طرح کا خوف اور بے چینی پیدا ہو گئی تھی جس کی وجہ سے پہرے پر کھڑے اکثر عراقی فوجی بغیر دیکھے بھالے فائرنگ کر رہے تھے۔ جب ہم ابراہیم اور دوسرے جوانوں تک پہنچے تو وہ بھی اپنا کام انجام دے چکے تھے۔ وہاں سے ہم اکٹھے چوٹیوں کی طرف چل پڑے۔ ابراہیم نے کہا: ’’صبح تک ہمارے پاس کافی وقت ہے۔ اسلحہ اور دوسرے وسائل بھی ہیں۔ یوں کرتے ہیں کہ گھات لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور دشمن کے دل میں زیادہ سے زیادہ وحشت اور خوف پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘‘ ابھی ابراہیم کی بات مکمل بھی نہ ہونے پائی تھی کہ کچی سڑک سے ہمیں دھماکے کی آواز سنائی دی۔ ایک عراقی گاڑی سرنگ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئی تھی۔ ہم اپنی مہم کی کامیابی پر خوش ہو گئے۔ عراقیوں کی طرف سے کی جانے والی فائرنگ کی آواز تیز ہو گئی۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ ہمارے فوجی ان کے علاقوں میں گھس گئے ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ انہوں نے مارٹر گولوں اور لائٹ فائرز (روشنی کے گولوں) کی بوچھاڑ کر دی تھی۔ ہم بھی جلدی جلدی پہاڑ کی طرف چلے گئے۔ ہمارے سامنے ایک ٹیلہ تھا۔ اچانک ایک عراقی جیپ اس کے پیچھے سے نکلی اور ہماری طرف بڑھنے لگی۔ وہ ہمارے اتنے نزدیک پہنچ گئی تھی کہ ہمارے پاس کچھ سوچنے کا وقت ہی نہ رہا تھا۔ جوانوں نے جلدی سے مورچہ سنبھال لیا اور جیپ کی طرف فائرنگ شروع کر دی۔ تھوڑی دیر بعد ہم عراقی جیپ کی طرف بڑھے۔ ایک اعلیٰ عراقی افسر اور اس کا ڈرائیور ہماری گولیوں کا نشانہ بن چکے تھے۔  فقط ان کا وائرلیس آپریٹر ہی بچا تھا جو زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا تھا۔ اس کے پاؤں میں ایک گولی لگ گئی تھی جس سے وہ مسلسل کراہے جا رہا تھا۔ ایک جوان نے اپنا اسلحہ سنبھالا اور اس کی طرف بڑھا۔ عراقی فوجی مسلسل کہہ رہا تھا: ’’الامان، الامان۔‘‘ اچانک ابراہیم چلّایا: ’’تم کیا کرنا چاہتے ہو؟!‘‘ جانے والے جوان نے کہا: ’’کچھ نہیں۔ میں چاہتا ہوں اسے پُرسکون کر دوں۔‘‘ ابراہیم نے جواب دیا: ’’میرے دوست، جب تک ہم فائرنگ کر رہے تھے اس وقت تک وہ ہمارا دشمن تھا، اب جب کہ یہ ہماری دسترس میں ہے تو یہ ہمارا قیدی ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ اس وائرلیس آپریٹر کے پاس خود چلا گیا اور اسے زمین سے اٹھا لیا۔ پھر اپنے کندھوں پر اسے اٹھا کر چلنے لگا۔ ہم سب تعجب سے ابراہیم کا اس کے ساتھ یہ سلوک دیکھ رہے تھے۔ ہم میں سے ایک نے کہا: ’’آغا ابرام، آپ جانتے ہیں کہ کیا کر رہے ہیں؟ یہاں سے لے کر آپ کے ٹھکانے تک تیرہ کلو میٹر کا فاصلہ ہم نے پہاڑ پر طے کرنا ہے۔‘‘ ابراہیم نے واپس پلٹ کر جواب دیا: ’’یہ مضبوط بدن خدا نے انہی دنوں کے لیے ہمیں عطا کیا ہے۔‘‘ اس کے بعد وہ پہا ڑ کی طرف چل پڑا۔ہم نے بھی جلدی سے جیپ کے اندر موجود سامان اور عراقیوں کے وائرلیس کو اٹھایا اور اس کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ پہاڑ کے نیچے پہنچ کر تھوڑا آرام کیا اور عراقی کے زخمی پاؤں کو پٹی باندھی۔ اس کے بعد ہم دوبارہ اپنے راستے پر ہو لیے۔ تقریباً سات گھنٹے کی کوہ پیمائی کے بعد ہم محاذ جنگ پر پہنچ گئے۔ راستے میں ابراہیم اس عراقی قیدی سے باتیں کرتا رہا اور وہ بھی مسلسل ابراہیم کا شکریہ ادا کرتا رہا۔ صبح کی اذان ہوئی تو ہم نے نسبتاً ایک پُرامن جگہ پر ٹھہر کر نماز فجر باجماعت پڑھی۔ عراقی قیدی نے بھی ہمارے ساتھ ہی جماعت کے ساتھ نماز پڑھی۔ تب ہمیں معلوم ہوا کہ وہ بھی شیعہ ہے۔ نماز کے بعد ہم نے تھوڑا سا کھانا کھایا۔  جو کچھ ہمارے پاس تھا وہ ہم سب نے آپس میں مساوی تقسیم کر لیا حتی کہ اس عراقی قیدی کو بھی برابر کا حصہ دیا۔ عراقی قیدی جسے ہم سے اتنے اچھے سلوک کی توقع نہ تھی خود ہی اپنا تعارف کروانے لگا: ’’میں ابو جعفر، شیعہ ہوں اور کربلا میں رہتا ہوں۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ تم لوگ ایسے ہو۔۔۔‘‘ مختصر یہ کہ اس نے کافی ساری باتیں کی جن میں سے فقط کچھ الفاظ ہی ہمیں سمجھ آ رہے تھے۔ ابھی تک اجالا نہ پھیلا تھا۔ ہم وہاں نزدیک ہی ایک غار ’’بان اسیران‘‘ میں چلے گئے اور آرام کرنے لگے۔ رضا گودینی کمک لانے کے لیے ایرانی فوج کے پڑاؤ کی طرف چلا گیا۔ گھنٹہ بھر گزرا ہو  گا کہ رضا بہت سے سامان اور فوجی جوانوں کے ہمراہ واپس آ گیا اور ہمیں آوازیں دینے لگا۔ میں نے پوچھا: ’’رضا، کیا حالات ہیں؟‘‘ کہنے لگا: ’’جب میں غار کی طرف واپس آ رہا تھا تو اچانک ٹھٹھک کر رہ گیا۔ غار کے سامنے ایک مسلح شخص بیٹھا ہوا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا کہ شاید تم میں سے کوئی ہے۔ لیکن جب تھوڑا سا آگے بڑھا تو حیران رہ گیا۔ وہ وہی عراقی قیدی ابو جعفر تھا جو اسلحہ اپنے ہاتھ میں تھامے پہرہ دے رہا تھا۔ جیسے ہی میں نے اسے دیکھا تو میرا رنگ اڑ گیا، لیکن ابوجعفر نے مجھے سلام کیا اور اسلحہ میرے حوالے کر دیا۔ پھر عربی زبان میں مجھ سے کہنے لگا: ’’تمہارے ساتھی سو رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک عراقی ٹولی گشت کرتی ہوئی یہاں سے گزر رہی تھی۔ اسی وجہ سے میں ہوشیار ہو گیا کہ اگر وہ نزدیک آئے تو ان سے مقابلہ کروں گا۔‘‘ ہم سب لوگ اپنے پڑاؤ کی طرف چل دیے۔ ابو جعفر کو ہم نے کچھ دن اپنے پاس رکھا۔ ابراہیم نے راستے میں جو بوجھ برداشت کیا تھا اس نے اسے بیمار کر دیا تھا، جس کی وجہ سے وہ ہسپتال میں داخل ہو گیا۔ کچھ دن بعد وہ بھی واپس  آ گیا۔ سب جوان اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔ میں نے ابراہیم کو بلایااور کہا: ’’مغربی سپاہ کے جوان تمہارا شکریہ ادا کرنے آئے ہیں۔‘‘ اس نے حیران ہو کر پوچھا: ’’کیوں، مگر ہوا کیا ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’تم آؤ تو سہی، خود ہی پتا چل جائے گا۔‘‘ میں اور ابراہیم سپاہ کے پڑاؤ کی طرف چلے گئے۔ متعلقہ افسر نے بات شروع کی: ’’وہ عراقی قیدی ابو جعفر جسے تم لوگ اپنےساتھ لے آئے تھے۔ اس نے اپنے لشکر کی ترتیب، اپنی بریگیڈ کے ٹھکانے، افسروں اور راستوں کے بارے میں جو معلومات ہمیں فراہم کی ہیں، وہ بہت ہی زیادہ قیمتی ہیں۔‘‘ اس کے بعد اس نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’یہ قیدی تین دنوں سے ہمیں مسلسل معلومات دے رہا ہے اور اس کی ساری معلومات صحیح اور درست ہیں۔ وہ جنگ کے آغاز ہی سے اس علاقے میں موجود تھا۔ اس نے عراقی فوج کے راستوں اور ان کے وائرلیس کوڈز کے بارے میں بھی سب کچھ بتا دیا ہے۔ ہم اسی لیے یہاں حاضر ہوئے ہیں کہ آپ کا شکریہ ادا کر سکیں۔‘‘ ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’ارے نہیں، ہم نے کیا کیا ہے۔ یہ خدا کا کام تھا۔‘‘ اگلے دن ابو جعفر کو قیدیوں کے کیمپ میں بھیج دیا گیا۔ ابراہیم نے کافی کوشش کی کہ ابوجعفر ہمارے پاس ہی رہے مگر ایسا نہ ہو سکا۔ ابوجعفر نے کہا تھا: ’’میں چاہتا ہوں کہ آپ لوگ مجھے یہیں رکھ لیں۔ میں عراقیوں کے ساتھ جنگ لڑنا چاہتا ہوں۔‘‘ لیکن اس کی یہ درخواست قبول نہ کی گئی۔

*****

کچھ عرصے بعد میں نے سنا کہ گروہ کچھ عراقی قیدی گروہ توابین کے عنوان سے محاذ پر آئے ہیں۔ وہ بدر بریگیڈ کے  سپاہیوں کے ساتھ مل کر عراقیوں کے خلاف جنگ لڑ رہے تھے۔ عصر کا وقت تھا۔ ہمارے گروہ کا ایک پرانا ساتھی مجھے ملنے کے لیے آیا۔ اس نے خوشی سے بتایا: ’’تمہارے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ وہ عراقی قیدی ابو جعفر بدر بریگیڈ کے کیمپ میں کافی سرگرم ہے۔‘‘ حملے کا وقت نزدیک ہی تھا لہٰذا ہم حملے کے بعد ہم اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ بدر بریگیڈ کے کیمپ میں بھی گئے۔ ہم نے ارادہ کر لیا تھا کہ جیسے بھی ہو ابو جعفر کو ڈھونڈ کر اپنے جوانوں میں شامل کر لیں گے۔ بریگیڈ کی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے ایک ایسا منظر ہماری آنکھوں کے سامنے آیا جو ناقابل یقین تھا۔بریگیڈ کے شہداء کی تصاویر دیوار پر چپکی ہوئی تھیں۔ بدر بریگیڈ کے آخری حملے میں شہید ہونے والے مجاہدین میں ابوجعفر کی تصویر بھی نظر آ رہی تھی۔ میں چکرا کر رہ گیا۔ میری حالت عجیب سی ہو گئی تھی۔ وہاں کھڑا مبہوت ہو کر اس کے چہرے کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے بعد ہم اس عمارت میں داخل ہی نہ ہوئے۔ وہاں سے پلٹے تو اس رات کے تمام واقعات میرے ذہن میں گھومنے لگے۔ دشمن پر حملہ، ابراہیم کی جانثاری، عراقی وائرلیس آپریٹر، قیدیوں کا کیمپ، بدر بریگیڈ ۔۔۔ اس کے بعد شہادت۔ بہت خوش قسمت تھا ابوجعفر۔

 

[1]وہاب قنبری سپاہ کرمانشاہ کے بانی اور مقامی کُرد قبیلے سے تھے۔ وہاب کے پاس یونیورسٹی کی ڈگری تھی اور وہ قرآن و نہج البلاغہ پر کافی دسترس رکھتے تھے۔ اکثر فوجی جوانوں کے مطابق، یہ وہاب قنبری کی شجاعت اور مدیریت ہی تھی جس نے کردستان کے فسادات میں کرمانشاہ کو غیر جانبدار رکھا۔ وہاب کو اس کی محنتوں کو صلہ مل گیا اور وہ اپنے شہید دوستوں کے ساتھ جا کر ملحق ہو گیا۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location