شهید ابراهیم هادی

قیدی

 

دوسروں کا احترام کرنا، ابراہیم کی خصوصیات میں سے ایک اہم خصوصیت تھی۔ یہاں تک کہ وہ جنگی قیدیوں کا بھی احترام کیا کرتا تھا۔ ہم ہمیشہ اس کے منہ سے یہ سنتے تھے کہ : ’’ہمارے یہ دشمن زیادہ تر جاہل اور ناآگاہ لوگ ہیں۔  ہمارے اندر انہیں حقیقی اسلام کی جھلک دِکھنی چاہیے۔ اس وقت تم دیکھو گے کہ یہی لوگ بعثی حکومت کے مخالف  ہو جائیں گے۔‘‘یہی وجہ تھی کہ اکثر مہموں میں اس کی یہ کوشش ہوتی کہ وہ دشمن فوجیوں کی طرف گولیاں برسانے کی بجائے انہیں اپنی قید میں لے لے۔ قیدیوں کے ساتھ بھی اس کا سلوک بہت اچھا ہوتا تھا۔ ہمارے جوان تین عراقی فوجیوں کو قید کر کے شہر میں لے آئے۔ ابھی تک ان کی نگرانی کے لیے کسی جگہ کا بندوبست نہیں کیا گیا تھا۔ ان کی حفاظت کی ذمہ داری بھی ہم نے ابراہیم کے سپرد کر دی۔ جو سامان بھی ہمارے واسطے آتا یا جو کچھ بھی ہم کھاتے، ابراہیم اسے ان قیدیوں میں بھی تقسیم کر دیتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سب لوگ حتی کہ وہ قیدی بھی ابراہیم پر فریفتہ ہو گئے۔ اسے تھوڑی بہت عربی بھی آتی تھی۔ فارغ اوقات میں وہ ان کے پاس بیٹھ جاتا اور ان کے ساتھ باتیں کیا کرتا۔ ابراہیم دو دن تک ان کے ساتھ رہا، یہاں تک کہ قیدیوں کو لے جانے والی گاڑی آ گئی۔ انہوں نے ابراہیم سے پوچھا: ’’تم بھی ہمارے ساتھ آؤ گے؟‘‘ جب انہوں نے ابراہیم کی طرف سے نفی میں جواب سنا تو بہت رنجیدہ ہوئے۔ وہ روتے ہوئےدرخواست کر رہے تھے: ’’ہمیں یہیں رہنے دیا جائے۔ جو کچھ آپ لوگ کہیں گے ہم کریں گے حتی کہ ہم بعثیوں کے ساتھ جنگ کرنے پر بھی تیار ہیں۔‘‘  منطقہ ’’بازی دراز‘‘ کی چوٹیوں پر حملے کا آغاز ہو چکا تھا۔ ہم دو افراد چوٹی کی بلندی کی طرف تھوڑا سا آگے بڑھے۔ ہم اپنے ساتھیوں سے دور ہو گئے تھے۔ ایک مورچے پر پہنچے کہ جس میں بہت سے عراقی فوجی موجود تھے۔ میں نے اسلحے سے انہیں باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ مجھے توقع نہیں تھی کہ وہ اتنے زیادہ ہوں گے۔ ہم دو جبکہ وہ پندرہ تھے۔ میں نےانہیں چلنے کو کہا مگر وہ اپنی جگہ سے ہل ہی نہیں رہے تھے۔ وہ ہمارے سامنے ایسے کھڑے ہو گئے کہ جب بھی ممکن ہو ہم پر حملہ کر دیں۔ شاید انہوں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ ہم دو ہوں گے۔ میں دوبارہ چلّایا: ’’جلدی چلو۔‘‘ اور اپنے ہاتھ سے اشارہ بھی کیا لیکن وہ سب اپنے پیچھے کھڑے اپنے افسر کی طرف دیکھ رہے تھے۔بعثی افسر اپنی بھنووں کو اوپر کی طرف حرکت دے رہا تھا یعنی  نہ جاؤ۔ میں خود بہت ڈر گیا تھا۔ ابھی تک ایسی صورتحال سے پالا نہیں پڑا تھا۔ خوف سے میرا منہ کڑوا ہو گیا۔ ایک دفعہ تو میں نے سوچا کہ ان سب کو کلاشنکوف سے بھون ڈالوں مگر یہ درست نہیں تھا۔ کسی بھی وقت کوئی برا اتفاق پیش آ سکتا تھا۔ میں نے ڈر کے مارے اسلحے کو مضبوطی سے تھام لیا۔ خدا سے مدد طلب کی۔ اچانک مورچے کے پیچھے سے ابراہیم نظر ا ٓگیا۔ وہ ہماری طرف آ رہا تھا۔ مجھے عجیب سا اطمینان حاصل ہو گیا۔ وہ جیسے ہی پہنچا تو میں نے قیدیوں کی طرف دیکھے دیکھے کہا:’’آغا ابرام، مدد کرو!‘‘  اس نےپوچھا: ’’کیا ہوا؟!‘‘ میں نے کہا: ’’اصل مسئلہ اس عراقی افسر نے بنایا ہوا ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ یہ لوگ یہاں سے ہلیں۔‘‘ اس کے بعد میں نے عراقی افسر کی اشارہ کیا۔ اس کا یونیفارم اور رینک دوسروں سے مختلف تھا۔ ابراہیم نے اسلحہ اس کے کندھے سے اتارا اور آگے بڑھا۔ ایک ہاتھ سے اس افسر کا کالر اور دوسرے ہاتھ سے اس کا بیلٹ پکڑ کر اسے اچانک اٹھایا اور کئی میٹر دور تک اچھال کر پھینک دیا۔ سارے عراقی ڈر کے مارے زمین پر بیٹھ گئے اور اپنے ہاتھ اوپر کر لیے۔ عراقی افسر بار بار ابراہیم کی منتیں کر رہا تھا: ’’الدخیل، الدخیل، ارحم، ارحم۔‘‘ اور مسلسل رو بھی رہا تھا۔ میں حیران رہ گیا تھا اور خوشی سے پھولا نہیں سما رہا تھا۔ تھوڑی دیر پہلے کا سارا خوف ہرن ہو چکا تھا۔ ابراہیم نے عراقی افسر کو باقی قیدی فوجیوں کے درمیان گھمایا۔ اس دن خدا نے ابراہیم کو ہماری کمک کے لیے بھیج دیا تھا۔ اس کے بعد ہم قیدیوں اور افسر کو لے کر چوٹی سے نیچے اتر آئے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location