شهید ابراهیم هادی

دوسری حاضری

30 ستمبر کو ہم سپاہ کے ایک دستے کے ساتھ محاذ پر چلے گئے۔ راستے میں سپاہ ہمدان کی چوکی پر تھوڑی دیر رُکے۔ ظہر کی  اذان ہو رہی تھی۔ برادر بروجردی سے ہماری ملاقات وہیں ہوئی۔ وہ سپاہ کے کچھ جوانوں کے ساتھ محاذ پر جا رہا تھا۔ ابراہیم اذان دینے لگا اور باقی سب جوان وضو کرنے لگے۔ جوانوں میں ایک عجیب قسم کی روحانی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ محمد بروجردی نے پوچھا: ’’امیر بھائی، یہ ابراہیم کہاں سے ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہمارے ہی علاقے سے ہے۔ 17 شہریور روڈ اور خراسان چوک کی طرف۔‘‘ برادر بروجردی نے کہا: ’’عجیب آواز ہے اس کی۔ میں نے ایک دوبار اسے محاذ پر دیکھا ہے۔ کافی بہادر اور جرأتمند جوان ہے۔‘‘ اس کے بعد کہنے لگا: ’’اگر ممکن ہو تو اسے ہمارے پاس کرمانشاہ لے آؤ۔‘‘ نماز، جماعت کے ساتھ پڑھی گئی۔ اس کے بعد ہم چل پڑے۔ یہ دوسری بار تھی کہ ہم سرپل ذہاب میں آئے تھے۔ اصغر وصالی نے اپنے جوانوں کو مستعد کر دیا تھاجس کے بعد علاقے میں کافی حد تک امن و امان ہو گیا تھا۔ اصغر کافی بہادر اور شجاع کمانڈر تھا۔ ابراہیم کو اس سے کافی لگاؤ تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا: ’’میں نے اصغر جیسا شجاع، دلاور اور منتظم گوریلا نہیں دیکھا۔ اصغر اپنی بیوی کو بھی محاذ پر لے آتا ہے اور اپنی پیکان کار، جو اسلحے کا گودام لگتی ہے، پر بٹھا کر تمام محاذوں پر اسے پھراتا رہتا ہے۔‘‘ ابراہیم کے بارےمیں اصغر کے جذبات بھی ایسے ہی تھے۔ ایک بار جب اصغر نے دشمن کے ٹھکانوں کی ریکی اور حملے کا ارادہ کیا تو ابراہیم سے کہا: ’’تیار رہنا، ریکی کے لیے چلیں گے۔‘‘ اصغر جب ریکی سے واپس آیا تو کہنے لگا: ’’میں انقلاب سے پہلے لبنان میں جنگ لڑ چکا ہوں۔ 1979؁ میں کردستان میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران محاذ پر بھی رہا ہوں۔لیکن یہ جوان جس نے ابھی تک باقاعدہ طور پر فوجی اور جنگی تربیت بھی نہیں لی، انتہائی ماہر بھی ہے اور جنگ کی باریکیوں کو بھی اچھی طرح سمجھتا ہے۔‘‘ یہی وجہ تھی کہ اصغر  حملوں کی منصوبہ بندی کرتے وقت ابراہیم سے مدد لیا کرتا تھا۔ ایک حملے میں انہوں نےبغیر کسی جان و مالی نقصان کے دشمن کے آٹھ ٹینک تباہ کر کے رکھ دیے اور بہت سے عراقی فوجیوں کو قید بھی کر لیا۔ اصغر وصالی نے ابوذر بیرک کی ایک عمارت کو رضاکار مجاہدوں کے لیے آمادہ کر دیا اور ان کے ناموں اور کوائف کے اندراج اور انہیں تقسیم کرتے ہوئے شہر میں ایک خاص قسم کا نظم و ضبط پیدا کر دیا۔ جب شہر کے حالات ذرا پُرسکون ہو گئے  تو ابراہیم نے دوسرے مجاہدین کے ساتھ مل کر زورآزمائی اور پہلوانی کا اکھاڑا جما لیا۔ ہر روز صبح کے وقت ابراہیم ایک پتیلے پر ضرب لگاتا اور اپنے جوشیلی آواز سے پڑھا کرتا تھا۔ اصغر اکھاڑے کا ریفری بن جاتا۔ جی ۳ کلاشنکوف کو بطور گرز استعمال کیا جاتا۔ توپ کے گولے اور دوسرے اسلحہ سے بھی ورزش کرنے کے لیے مختلف قسم کی چیزیں بنا لی گئیں۔ ایک کمانڈر کہا کرتا تھا: ’’ان دنوں بہت سے وہ لوگ جو شہر میں رہ گئے تھے، ہسپتالوں کی نرسیں اور جنگجو جوان  صبح صبح اکھاڑے کے پاس آ جاتے تھے۔‘‘ ابراہیم اپنی سریلی اور میٹھی آواز میں پڑھتا اور اصغر مقابلوں میں ریفری بن جاتا۔ اس طریقے سے انہوں نے زندگی  اور امید کی روح کو زندہ رکھا ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ابراہیم واقعاً ایک عجیب سا انسان تھا۔

*****

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتےہیں: ’’ہر نیک کام جو انسان انجام دیتا ہے اس کا ثواب قرآن مجید میں مشخص ہے سوائے نمازِ شب کے کیونکہ اس کی اتنی زیادہ اہمیت ہےکہ اس کا ثواب خدا نے کسی کو نہیں بتایا اور فرمایا ہے: ’’ان کے پہلو، ان کے بستروں سے جدا ہو جاتے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ جو کچھ انہوں نے انجام دیا ہے اس کی جزا میں مَیں نے ان کے لیے کیا کیا ذخیرہ کر رکھا ہے۔‘‘[1] سرپل ذہاب میں گزرے اس تھوڑے سے عرصے میں ابراہیم کا معمول تھا کہ اذان صبح سے دوگھنٹے پہلے بیدار ہو جاتا اور جوانوں کی خبرگیری کے  بہانے  اپنے بستر سے اٹھ  کر دور چلا جاتا۔ لیکن مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ وہ سحر خیزی کی لذت لیتا اور نمازِ شب میں مشغول ہو جاتا تھا۔ ایک بار میں نے ابراہیم کو دیکھا کہ اذان صبح سے ایک گھنٹہ پہلے اس کی آنکھ کھلی۔ بڑی مشکل سے اس نے پانی کی ایک بالٹی مہیا کی اور غسل اور نماز شب کے لیے اس پانی کو استعمال کیا۔

 

[1]میزان الحکمۃ، حدیث 3665

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location