شهید ابراهیم هادی

بات کی تأثیر

 

انقلاب کی کامیابی کو کئی ماہ گزر چکے تھے۔ ہمارے ایک دوست نے ایک دن مجھ سے کہا: ’’کل تم ابراہیم کے ساتھ محکمہ ورزش و کھیل کے دفتر چلے جاؤ۔ آغا داودی (محکمے کے انچارج) کو تم سے کچھ کام ہے۔‘‘ اگلے دن ہم نے پتا لیا اور محکمے میں چلے گئے۔ آغا داودی جو ہائی سکول میں ابراہیم کے استاد رہ چکے تھے، انہوں نے بہت گرمجوشی سے ہمارا استقبال کیا۔ اس کے بعد ہم کچھ اور لوگوں کے ساتھ ہال میں داخل ہو گئے۔ انہوں نے ہم سے کچھ باتیں کیں اور پھر بتایا: ’’آپ لوگ جو کھلاڑی اور انقلابی جوان ہیں، آپ کو دعوت دی جاتی ہے کہ اس محکمے میں تشریف لائیں اور ذمہ داریاں سنبھالیں۔‘‘ انہوں  نے ابراہیم  اور مجھ سے کہا: ’’محکمے کے شعبۂ تفتیش کا عہدہ ہم نے تمہارے لیے رکھ چھوڑا ہے۔‘‘ ہم نے بھی تھوڑی سی بات چیت کے بعد اس ذمہ داری کو قبول کر لیا۔ اگلے دن ہمارا کام شروع ہو گیا۔ جہاں بھی کوئی مشکل پیش آتی تو آغا داودی سے رہنمائی لے لیتے۔ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ایک روز صبح کے وقت ابراہیم شعبۂ تفتیش کے دفتر میں داخل ہوا تو پوچھنے لگا: ’’کیا کر رہے ہو؟‘‘ میں نے کہا: ’’کچھ نہیں،  ایک سسپنڈنگ آرڈر لکھ رہا ہوں۔‘‘ اس نے پوچھا: ’’کس کے لیے؟‘‘ میں نے جواب دیا: ’’ایک رپورٹ موصول ہوئی ہے کہ ایک فیڈریشن کا انچارج  نامناسب حلیے کے ساتھ دفتر میں آتا ہے۔ ملازمین خصوصاً خواتین کے ساتھ اس کا رویہ انتہائی نامناسب ہے۔ یہاں تک کہا گیا ہے کہ اس کے بعض کام انقلاب مخالف ہیں۔ اس کی بیوی بھی حجاب نہیں اوڑھتی۔‘‘ میں نے رپورٹ لکھتے لکھتےکہا: ’’ایک نوٹ میں انقلاب کونسل کو بھی بھیجوں گا۔‘‘ ابراہیم نے پوچھا: ’’کیا میں رپورٹ دیکھ سکتا ہوں؟‘‘ میں نے کہا: ’’لو، یہ رہی رپورٹ اور یہ رہا سسپنڈنگ آرڈر۔‘‘ اس نے رپورٹ کو غور سے پڑھا پھر پوچھا: ’’تم نے خود اس شخص سے بات کی ہے؟‘‘ میں نے کہا: ’’نہیں، میں ضروری نہیں سمجھتا۔ سبھی جانتے ہیں کہ وہ کس قماش کا انسان ہے۔‘‘ اس نے جواب دیا: ’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ ایک جھوٹا انسان ہی ایسا ہوتا ہے جو ہر سنی سنائی بات کی تائید کر دیتا ہے۔‘‘ میں نے کہا: ’’آخر اسی فیڈریشن کے اپنے جوانوں نے اطلاع دی تھی۔۔۔‘‘ میری بات کاٹ کر کہنے لگا: ’’اس کے گھر کا پتا ہے تمہارے پاس؟‘‘ میں نے کہا: ’’ہاں، ہے۔‘‘ ابراہیم نے کہا: ’’آج سہ پہر کو مل کر اس کے گھر چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کون ہے اور کیا کہتا ہے؟‘‘ میں نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: ’’ٹھیک ہے۔‘‘ سہ پہر کو اپنا کام نمٹا کر  میں نے اس کا پتا اٹھایا اور ہم دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر چل پڑے۔ پتا، سید خندان پُل سے آگے کا تھا۔ ہم گلیوں میں اس کا گھر ڈھونڈنے لگے۔ اتفاق سے اسی وقت وہ شخص بھی پہنچ گیا۔  رپورٹ پر لگی اس کی تصویر کے ذریعے ہم نے اسے پہچان لیا تھا۔ ایک بنز گاڑی ایک گھر کےسامنے رکی۔ ایک خاتون جو تقریباً بے پردہ تھی، گاڑی سے اتری اور گھر کا دروازہ کھولاتو  وہ شخص گاڑی کو اندر لے گیا۔ میں نے کہا: ’’دیکھا ابرام، دیکھا تم نے کہ اس شخص کا کوئی نہ کوئی مسئلہ ضرور ہے۔‘‘ کہنے لگا: ’’پہلے ہمیں اس سے بات تو کر لینی چاہیے۔ اس کے بعد تمہیں کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔‘‘ میں موٹر سائیکل کو گھر کے سامنے لے گیا اور اسے سٹینڈ پر کھڑا کر دیا۔ ابراہیم نے گھنٹی بجائی۔ وہ شخص جو ابھی تک گھر کی صحن ہی میں تھا، دروازے پر آیا۔ وہ کافی موٹی جسامت کا مالک تھا۔ اس نے کلین شیو کرا کر رکھی تھی۔ ہم دونوں کو اس محلے میں دیکھ کر کافی حیران ہوا۔ ہم پر ایک نظر ڈالی اور کہنے لگا: ’’فرمائیے!‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا: ’’اگر میں ابراہیم کی جگہ ہوتا تو اس کی خوب خبر لیتا۔‘‘ لیکن ابراہیم نے اپنے نرم لہجے میں مسکراتے ہوئے اسے سلام کیا اور کہا: ’’میں ابراہیم ہادی ہوں۔ آپ سے کچھ پوچھنا تھا، اسی لیے آپ کو زحمت دے رہا ہوں۔‘‘ اس نے کہا: ’’آپ کا نام کافی سنا سنا لگتا ہے۔ یہی کچھ دن ہوئے آپ کے بارے میں سنا، شاید محکمے میں ۔  ہاں، محکمے کا شعبۂ تفتیش، ایسا ہی ہے نا؟‘‘ ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’جی!‘‘وہ کافی حواس باختہ ہو گیا اور ہمیں اندر لے جانے کے لیے اصرار کرنے لگا۔ ابراہیم نے کہا: ’’بہت شکریہ۔ بس آپ سے تھوڑی دیر کام ہے۔ اس کے بعد اجازت چاہیں گے۔‘‘ ابراہیم اس کے ساتھ باتیں کرنے لگا۔ تقریباً ایک گھنٹہ ہو گیا مگر ہمیں یہ وقت گزرنے کا احساس تک نہ ہوا۔ ابراہیم نے اسے ہر چیز کے بارے میں بتایا۔ ہر مورد کے لیے اس کے سامنے ایک مثال رکھی۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’دیکھو، میرے عزیز دوست۔ تمہاری بیوی فقط تمہارے لیے ہے، دوسروں کے  سامنے نمائش کے لیے نہیں ہے۔ تم جانتے ہو، تمہاری بے پردہ بیوی کو دیکھ کر کتنے ہی جوان گناہ میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ اور دوسری بات یہ کہ جب تم ایک ادارے کے انچارج ہو تو تمہیں نامناسب باتیں اور فضول مذاق نہیں کرنا چاہیے اور وہ بھی اپنے ماتحت کام کرنے والی خواتین کے ساتھ۔ تم اس سے پہلے اپنے شعبے میں چیمپئن تھے۔ لیکن  حقیقی چیمپئن وہ ہوتا ہے جو غلط کاموں کا راستہ روکے۔‘‘ اس کے بعد ابراہیم نے انقلاب، خون شہداء، امام خمینیؒ اور ملک دشمنوں کے بارے میں بہت سی باتیں کیں۔ وہ شخص بھی ابراہیم کی تائید کرتا گیا۔ آخر میں ابراہیم نے کہا: ’’دیکھو،  میرے عزیز! یہ تمہارا سسپنڈنگ آرڈر ہے۔‘‘ ایک دفعہ تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔اس نےتھوک نگلا اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھنے لگا۔ ابراہیم نے مسکراتے ہوئے وہ آرڈر اس کے سامنے پھاڑ دیا اور کہا: ’’میرے دوست، میری باتوں پر غور کرنا۔‘‘ اس کے بعد ہم نے خداحافظ کہا اور موٹر سائیکل پر بیٹھ کر اپنے راستے پر ہو لیے۔ سڑک کی نکڑ پر پہنچ کر میں نے پیچھے کی طرف دیکھا تو وہ شخص ابھی تک  گھر میں داخل نہیں ہوا تھا بلکہ وہیں کھڑا ہمیں دیکھے جا رہا تھا۔ میں نے کہا: ’’ابرام بھائی، بہت اچھی باتیں کیں تم نے۔ ان باتوں کا تو مجھ پر بھی اثر ہونے لگا۔‘‘ اس نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’یار، ہم کس قابل ہیں۔ فقط خدا ہی ہے جس نے میری زبان سے ان باتوں کو کہلوا دیا۔ انشاء اللہ ان باتوں کا اس پر اثر ہو گا۔‘‘ پھر کہنے لگا: ’’خاطر جمع رکھو۔ اچھے رویے سے بڑھ کر کوئی چیز بھی انسان پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ کیا تم نے نہیں پڑھا کہ خدا قرآن مجید میں اپنے پیغمبرﷺ سے ارشاد فرماتا ہے: ’’اگر آپ تندخو اور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے۔‘‘[1] پس ہمیں کم از کم اپنے پیغمبرﷺ کا یہ کردار سیکھنا چاہیے نا۔‘‘

*****

ایک دو ماہ گزرے تو اسی فیڈریشن کی نئی رپورٹ ہمارے پاس پہنچی کہ مذکورہ انچارج کافی بدل چکا ہے اور ادارے میں دوسروں کے ساتھ اس کا رویہ اور اخلاق کافی حد تک تبدیل ہو چکا ہے حتی کہ اس کی بیوی بھی اب باحجاب ہو کر اپنے کام پر جاتی ہے۔ میں نے ابراہیم کو دیکھا اور رپورٹ اس کے ہاتھ میں تھما دی۔ میں اس کے ردِّ عمل کا انتظار کر رہا تھا۔ اس نے رپورٹ پڑھنے کے بعد کہا: ’’خدا کا شکر ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے بات کا رُخ پھیر دیا۔ لیکن مجھے کوئی شک نہیں تھا کہ ابراہیم کے اخلاص نے اپنا کام کر دکھایا تھا۔ اس کی خلوص بھری گفتگو نے فیڈریشن کے اس انچارج کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا تھا۔

 

[1]سورہ آل عمران: 159

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location