شهید ابراهیم هادی

امامؒ کی واپسی

 

جنوری کے آخری ایام تھے۔ ایک متفقہ فیصلے کے تحت امام خمینیؒ کی حفاظت کی لیے تشکیل جانے والی ٹیموں میں سے ایک کی ذمہ داری ہمارے سپرد کی گئی۔ ہماری ٹیم یکم فروری کو مسلح ہو کر آزادی روڈ (جو ائیرپورٹ تک جا کر ختم ہوتا ہے) کے آخر پر جا کر تعینات ہو گئی۔ امام خمینیؒ کی گاڑی آنے کا منظر میں کبھی نہیں بھول سکتا۔ ابراہیم امام خمینیؒ کی شمع وجود کے گرد پروانہ وار گھوم رہا تھا۔ جسے ہی امام کی گاڑی رخصت ہوئی تو ہم سب ابراہیم کے ساتھ مل کر بہشت زہراؑ چلے گئے۔ بہشت زہرا کا بڑا دروازہ جو قم سے آنے والی سڑک کی طرف ہے، اس کی حفاظت ہمارےذمے تھی۔ ابراہیم دروازے پر کھڑا تھا مگر اس کے دل و جان بہشت زہراؑ کے اندر اس جگہ کا طواف کر رہے تھے جہاں امام خمینیؒ خطاب فرما رہے تھے۔ ابراہیم کہہ رہا تھا: ’’اس انقلاب کے قائد آ گئے ہیں۔ہم ان کے فرمانبردار ہیں۔ آج کے بعد سے جو کچھ امام کہیں گے اسی پر عمل ہو گا۔‘‘ اس دن کے بعد ابراہیم کو نہ کھانے پینے کی ہوش تھی نہ ہی سونے کی۔ عشرہ فجر[1]کے ایام میں کچھ دن تک تو ابراہیم کا کسی کو کچھ اتا پتا نہ تھا۔ 9 فروری کو کہیں جا کر اس کی شکل مجھے دکھائی دی۔ میں نے دیکھتے ہی پوچھا: ’’کہاں تھے ابرام جان؟ تمہاری والدہ سخت پریشان ہیں۔‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہ کر بولا: ’’ان دنوں، میں اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ مل کر گمنام شہداء کے کوائف جمع کر رہا تھا، کیونکہ کوئی ایسا تھا ہی نہیں جو میڈیکل ایگزامنرکے پاس جا کر ان کے معاملات کی چھان بین کرتا۔‘‘

*****

11 فروری کی رات تھی۔ابراہیم نے کچھ انقلابی جوانوں کے ساتھ مل کر اس علاقے کے تھانے پر قبضہ کر لیا۔ اس رات تھانہ 14 پر قبضہ کرنے کے بعد وہ رات بھر علاقے میں گشت کرتے رہے۔ اگلے روز ریڈیو پر انقلاب کی کامیابی کی خبر نشر ہوئی۔ ابراہیم کچھ دن تک امیر کے ہمراہ فلاحی سکول میں بھی جاتا رہا۔ کچھ مدت تک امام خمینیؒ کا باڈی گارڈ بھی رہا۔ اس کے بعد کچھ عرصے تک اس نے قصر جیل کی محافظت کی ذمہ داری نبھائی۔اس دوران وہ انقلابی کمیٹی کے جوانوں کی ذمہ داریوں میں ان کے ساتھ تعاون بھی کرتا تھا مگر رسمی طور پر انقلابی کمیٹی میں شامل نہیں ہوا۔

 

[1]انقلاب اسلامی کی کامیابی کے پہلے دس دن، جنہیں ایران میں عشرہ فجر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ یہ عشرہ یکم فروری سے 11 فروری تک ہوتا ہے۔ جس میں انقلاب  اور آزادی کا جشن منایا جاتا ہے اور اس حوالے سے مختلف تقاریب منعقد کی جاتی ہیں۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location