شهید ابراهیم هادی

الٰہی پیوند

 

 ایک روز سہ پہر کے وقت  ابراہیم اپنے کام سے گھر کو لوٹ رہا تھا۔ جب وہ گلی میں داخل ہوا تو اچانک اس کی نظر اپنے ایک ہمسایہ لڑکے پر پڑی جو ایک جوان لڑکی سے باتیں کرنے میں مشغول تھا۔ لڑکے نے جیسے ہی ابراہیم کو دیکھا، فوراً لڑکی کو خداحافظ کہا اور رفوچکر ہو گیا۔ وہ ابراہیم کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا۔ کچھ دن بعد یہی ماجرا دوبارہ پیش آیا۔ اس بار جب وہ لڑکا لڑکی کو خدا حافظ کہہ کر جانے ہی والا تھا تو اس نے دیکھ لیا کہ ابراہیم ان کے نزدیک آتا جا رہا ہے۔ لڑکی تو جلدی سے ایک اور گلی کی طرف چلی گئی مگر لڑکے کا ابراہیم سے سامنا ہو گیا۔ ابراہیم نے علیک سلیک شروع کی اور مصافحہ کیا۔ لڑکا ڈر گیا تھا، مگر ابراہیم کے ہونٹوں پر وہی ہمیشہ رہنے والی مسکراہٹ تھی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے چھڑائے، اس نے آرام سے اس لڑکے سے گفتگو شروع کر دی: ’’ہمارے گلی محلے میں ایسی باتیں پہلے کبھی نہیں ہوئیں۔ میں تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ تم اگر واقعاً اس لڑکی کو چاہتے ہو تو میں تمہارے باپ کے ساتھ بات کرتا ہوں کہ ۔۔۔‘‘ لڑکے نے اس کی بات کاٹ دی اور جلدی سے کہا: ’’نہیں، آپ کو خدا کا واسطہ، بابا کو کچھ نہ بتائیں۔ مجھ سے غلطی ہو گئی، مجھے معاف کر دیں۔۔۔‘‘ ابراہیم نے کہا: ’’نہیں! تم میرا مطلب نہیں سمجھے۔ دیکھو، تمہارے باپ کا گھر بہت بڑا ہے اور تم اس کی دکان پر اس کے ساتھ کام بھی کرتے ہو۔ میں آج رات مسجد میں تمہارے باپ سے بات کروں گا۔  اگر چاہو تو اس لڑکی سے شادی کر لو۔ اس کے علاوہ اور تمہیں کیا چاہیے؟‘‘ لڑکے نے سر نیچے کر لیا تھا اور کافی شرمندہ سا ہو گیا تھا۔ کہنے لگا: ’’بابا کو پتا چل گیا تو بہت ناراض ہوں گے۔‘‘ ابراہیم نے کہا: ’’بابا کو تم مجھ پر چھوڑ دو۔ وہ مجھے جانتے ہیں۔ اچھے اور سمجھدار انسان ہیں۔‘‘ لڑکے نے کہا: ’’مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا، کیا کہوں؟ جیسا  آپ کہتے ہیں۔‘‘ اس کے بعد وہ خدا حافظ کہہ کر چلا  گیا۔ رات کو نماز کے بعد ابراہیم نے اس لڑکے کے باپ سے بات شروع کی۔ پہلے تو اس نے شادی کے بارے میں باتیں کی اور پھر کہا کہ اگر کوئی جوان شادی کی شرائط رکھتا ہو اور مناسب بیوی بھی اسے مل رہی ہو تو اس کی شادی کر دینی چاہیے ورنہ وہ حرام میں مبتلا ہو سکتا ہے، جس کے لیے اسے خدا کے حضور جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اب ہمارے بڑوں کو چاہیے کہ اس حوالے سے جوانوں کی مدد کریں۔ لڑکے کےباپ نے پہلے تو ابراہیم کی باتوں کی تائید کی لیکن جب اس کے بیٹے کی بات آئی تو اس کی بھنویں سکڑ گئیں۔ ابراہیم نے  پوچھا: ’’محترم، اگر آپ کا بیٹا گناہ سے بچ کر اپنی حفاظت کرنا چاہتا ہے اور وہ بھی ایسے معاشرتی ماحول میں، تو کیا  اس نے غلط کیا؟‘‘ باپ نے کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہا: ’’نہیں۔‘‘ دوسرے دن ابراہیم کی ماں نے اس لڑکے کی ماں سے بات کی اور اس کے بعد لڑکی کی ماں سے۔ اس بات کو ایک مہینہ ہو گیا تھا۔ رات کو ابراہیم بازار سے گھر واپس آ رہا تھا۔ کوچے کے آخر پر چراغاں ایک گھر میں کیا گیا تھا۔ ابراہیم کے ہونٹوں پر خوشی کی مسکراہٹ پھیل گئی۔ اس بات کی خوشی کہ اس نے ایک شیطانی دوستی کو ایک الٰہی پیوند میں بدل دیا تھا۔ یہ شادی ابھی تک کامیاب جا رہی ہے اور یہ جوڑا اپنی زندگی کو ابراہیم کے اُس دن والے نیک رویے کا مرہون منت جانتا ہے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location