شهید ابراهیم هادی

آغا مجتہدی کا مدرسہ

 

انقلاب سے پہلے کے آخری سال تھے۔ بازار میں جانے کے علاوہ ابراہیم کوئی اور کام بھی کرتا تھا۔ نہ تو اس بارے میں کوئی جانتا تھا اور نہ ہی کبھی ابراہیم اس بارے میں کچھ بتاتا تھا لیکن اس کا رویہ اور  چال چلن مکمل طور پر تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ پہلے سے زیادہ روحانی ہوتا جا رہا تھا۔ صبح کے وقت پلاسٹک کا ایک کالاشاپنگ بیگ اس کے ہاتھ میں ہوتا اور وہ بازار کی طرف جا رہا ہوتا۔ اس میں اس نے کچھ کتابیں رکھی ہوتیں۔ ایک دن میں اپنی موٹرسائیکل پر بیٹھا سڑک سے گزر رہا تھا کہ ابراہیم پر نظر پڑ گئی۔ میں نے پوچھا: ’’ابراہیم بھائی، کہاں جا رہے ہو؟‘‘ اس نے کہا: ’’بازار جا رہا ہوں۔‘‘ میں نے اسے بٹھا لیا اور راستے میں پوچھا: ’’کچھ دنوں سے میں تمہارے ہاتھ میں یہ کالا شاپنگ بیگ دیکھ رہا ہوں۔ اس میں کیا ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’کچھ نہیں، کتابیں ہیں۔‘‘ گلی نائب السلطنۃ کی نکڑ پر وہ اتر گیا اور خدا حافظ کہہ کر چل دیا۔ مجھے حیرانی ہوئی۔ ابراہیم یہاں تو کام نہیں کرتا تھا۔ پھر کہاں چلا گیا؟ میں تجسس کے مارے اس کا تعاقب کرنے لگا۔ وہ چلتے چلتے ایک مسجد میں داخل ہو گیا اور وہاں بیٹھے جوانوں کے ساتھ بیٹھ کر اپنی کتاب کھول لی۔ میں سمجھ گیا کہ وہ دینی تعلیم حاصل کر رہا ہے۔ میں مسجد  سے باہر آ گیا اور وہاں سے گزرنے والے ایک بوڑھے آدمی سے پوچھا: ’’معاف کیجیے گا، اس مسجد کا نام کیا ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’مدرسہ حاج آغا مجتہدی۔‘‘ میں نے تعجب سے دائیں بائیں دیکھا۔ میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ابراہیم طالب علم ہو گیا ہے۔ وہاں دیوار پر پیغمبر اکرمﷺ کی ایک حدیث لکھی ہوئی تھی: ’’آسمان، زمین اور فرشتے روز و شب تین قسم کے لوگوں کے لیے دعاء مغفرت کرتے ہیں: علماء، طلاب، سخاوت مند۔[1]‘‘ رات کو اکھاڑے سے نکلتے نکلتے میں نے ابراہیم سے کہا: ’’ابراہیم بھائی، مدرسے جاتے ہو اور ہمیں کچھ بتاتے نہیں ہو؟‘‘ اس نے حیرت سے پلٹ کرمجھے دیکھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ میں نے کل اس کا تعاقب کیا تھا۔ اس نے بہت آہستہ سی آواز میں کہا: ’’بہت ہی بری بات ہے کہ انسان اپنی زندگی کو فقط کھانے پینے اور سونے میں گزار دے۔ میں باقاعدہ طور پر تو طالب علم نہیں ہوا ہوں، فقط وہاں سے استفادہ کرنے کی غرض سے جاتا ہوں۔ سہ پہر کے وقت بھی بازار میں جاتا ہوں، لیکن ابھی کسی کو یہ بات بتانا مت۔‘‘ انقلاب کی کامیابی کے زمانے تک ابراہیم کا یہی معمول تھا۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد اس کی مصروفیات اس قدر بڑھ گئیں کہ وہ اپنے پہلے کے کاموں کو جاری نہ رکھ سکا۔

 

[1]المواعظ العددیۃ، ص111

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location