شهید ابراهیم هادی

یک نفری والی بال

 

ہائی سکول کے ابتدائی عرصے ہی میں ابراہیم کے مضبوط بازؤوں کو دیکھ کر معلوم ہو جاتا تھا کہ وہ بہت سے کھیلوں میں چیمپئن ہے۔ تفریح کے پیریڈ میں وہ ہمیشہ والیبال ہی کھیلتا تھا۔ جوانوں میں سے کوئی بھی اس کے مقابلے پر آنے کی ہمت نہ کر سکتا تھا۔ ایک دفعہ اس نے چھ کھلاڑیوں پر مشتمل ایک ٹیم کا اکیلے ہی مقابلہ کیا۔ اس مقابلے میں اسے تین بار گیند کو اچھالنے کی اجازت تھی۔ ہم سب اپنے کھیل کے استاد کے ساتھ مل کر اس کی جیت کا منظر دیکھ رہے تھے۔ اس کے بعد ابراہیم زیادہ تر یک نفری والیبال ہی کھیلتا تھا۔ چھٹی کے دنوں میں ہم زیادہ تر ۱۷ شہریور روڈ پر واقع فائربریگیڈ کے دفتر کے عقب میں کھیلتے تھے۔ بہت سے بڑے بڑے نامی کھلاڑی ابراہیم کے مقابلے میں آنے سے گھبراتے تھے۔ لیکن ابراہیم کا سب سے زیادہ یادگار مقابلہ جنگ کے دوران گیلان غرب کے شہر میں ہوا۔ وہاں والی بال کا ایک میدان تھا جہاں فوجی جوان کھیلا کرتے تھے۔ ایک دن کچھ بسوں میں کچھ سرکاری عہدیدار جنگ زدہ علاقوں کا دورہ کرنے گیلان غرب آئے۔ اس کاروان کے سربراہ محکمہ کھیل اور ورزش کے انچارج آغا داؤدی تھے۔ آغا داؤدی ہائی سکول کے زمانے میں ابراہیم کے ورزش کے استاد رہ چکے تھے اور اسے اچھی طرح جانتے تھے۔ انہوں نے ابراہیم کو کھیلوں کا کچھ سامان دیا اور اسے کہا کہ جیسے چاہو اسے استعمال کر لو۔ اس کے بعد کہا: ’’ہمارےیہ دوست کھیلوں کے ہر قسم کے شعبے سے ہیں اور دورے پر آئے ہوئے ہیں۔‘‘ ابراہیم تھوڑی دیر مہمان کھلاڑیوں کے ساتھ بات چیت کرتا اور انہیں شہر کے مختلف حصے دکھاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ والی بال کے میدان میں پہنچ گئے۔ آغا داؤدی نے کہا: ’’تہران کی والی بال ٹیم کے کچھ کھلاڑی بھی ہمارے ساتھ ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہے، ایک مقابلہ ہو جائے؟‘‘ سہ پہر تین بجے مقابلے کا آغاز ہو گیا۔ پانچ کھلاڑی ایک طرف تھے کہ جن میں سے تین والی بال کے منجھے ہوئے پیشہ ور کھلاڑی تھے اور دوسری طرف ابراہیم اکیلا۔ اس مقابلے کو دیکھنے کے لیے کافی زیادہ تماشائی جمع ہو گئے تھے۔ ابراہیم اپنے سابقہ انداز میں ننگے پاؤں، پائنچے اوپر کیے اور بنیان پہنے ان کے مقابلے میں کھڑا ہو گیا۔ وہ اتنے جاندار انداز میں کھیلا کہ کسی کو یقین ہی نہیں ہوتا تھا۔ وہ مقابلہ ایک ہاف سے زیادہ نہ چل سکا اور دس پوائنٹ کی برتری سے ابراہیم کی جیت پر ختم ہو گیا۔ اس کے بعد ان کھلاڑیوں نے ابراہیم کے ساتھ تصویریں بنوائیں۔ انہیں یقین نہیں ہو رہا تھا کہ ایک سادہ سا جنگجو مشاق کھلاڑیوں کی طرح کھیل بھی سکتا ہے۔ ایک دفعہ میں نے دوکوہہ کے بیرک میں مجاہدین کے سامنے ابراہیم کے والی بال کی تعریف کی۔ ایک جوان گیا اور والی بال کی گیند لے آیا۔ اس کے بعد اس نے دو ٹیمیں بنائیں اور ابراہیم کو بھی بلا لایا۔ پہلے تو ابراہیم ٹالتا رہا اور کھیلنے سے انکار کرتا رہا مگر جب ہم نے اصرار کیا تو کہنے لگا: ’’ٹھیک ہے، لیکن تم سارے ایک طرف رہو گے اور میں اکیلا مقابلہ کروں گا۔‘‘ کھیل ختم ہونے کے بعد کچھ کماندڑز کہنے لگے: ’’ہم آج تک اتنا نہ ہنسے تھے۔ ابراہیم جیسے ہی گیند کو اچھالتا تو مقابل میں کچھ کھلاڑی گیند کی طرف جاتے تو آپس میں ٹکرا جاتے اور زمین پر گر جاتے تھے۔‘‘ ابراہیم نے کافی زیادہ پوائنٹس کی برتری سے یہ مقابلہ جیت لیا۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location