شهید ابراهیم هادی

پهلوان

 

کشتی کے عالمی چیمپئن سید حسین طحامی حاج حسن کے اکھاڑے میں تشریف لائے اور اکھاڑے کے جوانوں کے ساتھ کھیلنے لگے۔ اگرچہ سید کو چیمپئن شپ کے مقابلوں میں شرکت کیے کافی عرصہ ہو چکا تھا لیکن ان کا بدن ابھی تک کافی کسرتی اور مضبوط تھا۔ کھیل ختم ہونے کے  بعد وہ حاج حسن کو مخاطب کر کے کہنے لگے: ’’حاجی، کوئی ہے جو میرے ساتھ کشتی لڑے؟‘‘ حاج حسن نے جوانوں پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا: ’’ابراہیم!‘‘ اس کے بعد انہوں نے ابراہیم کو اکھاڑے میں اترنے کا اشارہ کیا۔ کشتی میں عموماً جو حریف زمین پر گر جائےیا چِت ہو جائے وہ ہار جاتا ہے۔ کشتی شروع ہو گئی۔ ہم سب تماشا دیکھنے لگے۔ دونوں پہلوان کافی دیر تک ایک دوسرے میں گتھے رہے لیکن کوئی بھی چت نہیں ہو رہا تھا۔ دونوں پہلوان کافی دباؤ میں آ گئے تھے، لیکن کوئی بھی دوسرے کو پچھاڑنے میں کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا۔ یہ کشتی بغیر ہار جیت کے ختم ہو گئی۔ کشتی کے بعد سید حسین زور زور سے کہنے لگے: ’’بارک اللہ، بارک اللہ[1]، کیا بہادر جوان ہو۔ ماشاء اللہ پہلوان!‘‘

*****

کھیل ختم ہو گیا تھا۔ حاج حسن ٹک ٹک ابراہیم کی چہرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ابراہیم نے آگے بڑھ کر حیرانی سے پوچھا: ’’کیا ہوا، حاجی؟‘‘ حاج حسن کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے: ’’اسی تہران میں پرانے وقتوں میں دو پہلوان ہوا کرتے تھے: حاج سید حسن رزّاز اور حاج صادق بلور فروش۔ وہ آپس میں کافی گہرے دوست تھے۔ کشتی میں بھی وہ ایک دوسرے کے مقابلے میں نہ آتے تھے، لیکن اس سے بھی اہم بات ان میں یہ تھی کہ وہ خدا کے مخلص بندے تھے۔ ہمیشہ کھیل شروع کرنے سے پہلے وہ قرآن کی چند آیات تلاوت کرتے اور روتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کا مختصر سا مصائب پڑھتے۔ ان کی پھونک سے مریض شفایاب ہو جایا کرتے تھے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’ابراہیم! میں تمہیں انہی جیسا ایک پہلوان سمجھتا ہوں۔‘‘ ابراہیم نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’نہیں، حاجی، وہ کہاں اور ہم کہاں!‘‘ حاج حسن جب ابراہیم کی اس انداز میں تعریف کر رہے تھے تو بعض جوانوں کو اچھا نہ لگا۔ اگلے روز تہران کے ایک اکھاڑے سے پانچ پہلوان ہمارے اکھاڑے میں آئے۔ طے پایا کہ ورزش کے بعد وہ ہمارے جوانوں کے ساتھ کشتی لڑیں گے۔ سب اس چیز پر آمادہ ہو گئے کہ حاج حسن کشتی کے ریفری ہوں گے۔ ورزش کے بعد کشتیاں شروع ہو گئیں۔ کل چار مقابلے ہوئے۔ دو مقابلے ہمارے جوانوں نے جیتے جبکہ دو مقابلے مہمان پہلوانوں نے۔ لیکن آخری کشتی میں آپس میں تھوڑی سی گرما گرمی ہو گئی۔ان لوگوں نے حاج حسن کے سامنےہلڑبازی شروع کر دی جس کی وجہ سے حاج حسن کافی رنجیدہ ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ آخری کشتی ابراہیم اور مہمان آئے ہوئے ایک جوان کے درمیان طے پائی ہے۔ وہ لوگ ابراہیم کو اچھی طرح جانتے تھے اور انہیں پورا یقین تھا کہ وہ لوگ کشتی ہار جائیں گے اس واسطے انہوں نے غل غپاڑہ شروع کر دیا تا کہ اگر ہار جائیں تو سارا قصور ریفری کے کھاتے میں ڈالیں۔ سب غصے میں تھے۔ چند لمحے نہ گزرے تھے کہ ابراہیم اکھاڑے میں کود پڑا۔ اس نے مسکراتے ہوئے تمام مہمان جوانوں سے ہاتھ ملایا اور آرام سے اکھاڑے سے نکل کر ہماری طرف واپس آ گیا۔ وہ کہنے لگا: ’’میں کشتی نہیں لڑوں گا۔‘‘ ہم سب نے حیرت سےپوچھا: ’’کیوں؟‘‘ تھوڑی دیر خاموش رہ کر اس نے پرسکون انداز میں جواب دیا: ’’ہماری دوستی اور رفاقت ان کاموں اور باتوں سے بہت زیادہ قیمتی ہے۔‘‘ اس کے بعد اس نے حاج حسن کا ہاتھ چوما اور ایک صلوات کے ذریعے کشتی کے مقابلے ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ اگرچہ اس دن ہم میں سے کوئی بھی نہ جیتا تھا نہ ہارا تھا مگر حقیقی فاتح ابراہیم تھا۔ جب ہم کپڑے تبدیل کر کے جانے لگے تو حاج حسن نے ہم سب کو بلایا اور کہا: ’’اب تم لوگ سمجھ گئے کہ میں نے ابراہیم کو کیوں پہلوان کہا تھا؟‘‘ ہم سب خاموش تھے۔ حاج حسن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: ’’دیکھو، میرے جوانو! پہلوانی یہ ہے جو آج تم لوگوں نے دیکھی ہے۔ ابراہیم نے اپنے نفس کے ساتھ کشتی لڑی اور جیت گیا۔ ابراہیم نے خدا کی خاطر ان سے کشتی لڑنے سے انکار کر دیا تا کہ اس طرح وہ کینے اور جھگڑے کا راستہ روک سکے۔ جوانو! حقیقی پہلوانی یہی  ہوتی ہے جو آج تم نے دیکھی ہے۔‘‘

*****

ابراہیم کی کامیابی کی داستانیں اسی طرح جاری تھیں کہ انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو گیا۔ اس کے بعد اکثر جوان انقلاب کے مسائل میں الجھ گئے اور پہلوانی کے کھیل میں ان کی شرکت کم ہونے لگی۔ ایک دن ابراہیم نے تجویز پیش کی کہ صبح اکھاڑے میں سب جمع ہو کر نماز فجر باجماعت پڑھا کریں اس کے بعد ورزش کر لیا کریں۔ سب نے اس تجویز سے اتفاق کر لیا۔ اس کے بعد ہم سب ہر روز صبح کے وقت اذان کے لیے اکھاڑے میں جمع ہو جاتے، نماز فجر باجماعت پڑھتے اور ورزش شروع کر دیتے۔ اس کے بعد مختصر سا ناشتہ کرتے اور پھر اپنے اپنے کام پرنکل جاتے۔ ابراہیم اس صورتحال سے بہت ہی خوش تھا، کیونکہ اس طرح ایک طرف تو ورزش کا سلسلہ منقطع نہ ہوا تھا اور دوسری طرف سب لوگ فجر کی نماز باجماعت پڑھ لیتے تھے۔ وہ ہمیشہ پیغمبر اکرمﷺ کی یہ حدیث بیان کرتا رہتا: ’’اگر میں فجر کی نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھ لوں تو مجھے صبح تک شب بیداری کرنے سے زیادہ پسند ہے۔‘‘ عراق کی طرف سے ایران پر مسلط کی جانے والی جنگ کے شروع ہوتے ہی اکھاڑے کی رونق بھی ماند پڑ گئی تھی کیونکہ اکثر جوان محاذ پر چلے گئے تھے۔ ابراہیم بھی اب کم ہی تہران آتا تھا۔ ایک بار آیا تو اپنا سارا ورزشی سامان اپنے ساتھ لے گیا اور وہیں محاذ والے علاقوں میں پہلوانی کا اکھاڑا جما لیا۔ حاج حسن توکل کا اکھاڑا حقیقی پہلوانوں کی تربیت کے حوالے سے کافی مشہور تھا۔ابراہیم کے علاوہ بھی وہاں سے تربیت پانے والے بہت سے جوان ایسے تھے جنہوں نے خداوند کریم کی بارگاہ میں اپنی پہلوانی کو ثابت کیا تھا۔ انہوں نے اپنے خون کے ذریعے اپنے ایمان کو محفوظ کیا۔ دراصل حقیقی پہلوان یہی لوگ ہیں۔ دفاع مقدس (ایران عراق کےمابین لڑی جانے والی آٹھ سالہ جنگ) کے اوائل ہی میں شہید حسن شہابی (اکھاڑے کے گرو)، شہید اصغر رنجبران (عمار بریگیڈ کے انچارج)، سید صالحی، محمد شاہرودی، علی خرمدل، حسن زاہدی، سید محمد سبحانی، سید جواد مجد پور، رضاپند، حمد اللہ مرادی، رضا ہوریار، مجید فریدوند، قاسم کاظمی اور ابراہیم کی شہادتوں،حاج علی نصراللہ، مصطفیٰ ہرندی، علی مقدم اور کچھ دوسرے دوستوں کی مجروحیت اور خود حاج حسن توکل کے انتقال کی وجہ سے ان کے اکھاڑے کا خوبصورت اور روحانیت بھرا دورانیہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا۔ کچھ عرصہ بعد وہ اکھاڑا ایک رہائشی عمارت میں تبدیل ہو گیا  اور اس کے ساتھ ہی وہاں ہماری کشتیوں کا زمانہ فقط یادوں کا حصہ بن کر رہ گیا۔

 

[1]عربی کا دعائیہ جملہ ہے جو کسی کو شاباش دیتے وقت کہتے ہیں، یعنی اللہ برکت دے۔

Comments (0)

Rated 0 out of 5 based on 0 voters
There are no comments posted here yet

Leave your comments

  1. Posting comment as a guest. Sign up or login to your account.
Rate this post:
Attachments (0 / 3)
Share Your Location